۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
نجف اشرف

حوزه/مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ العظمی آقای شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی دام ظلہ کے قلم سے شہادت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی مناسبت سے آپ فضائل کے اقیانوس کے ایک قطرہ کی جانب جو نہج البلاغہ میں مرقوم ہے، جسکا ترجمہ مولانا سید علی ہاشم عابدی نے کیا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے سلسلہ میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، جیسے جیسے زمانہ گذر رہا ہے ویسے ویسے اس بے نظیر شخصیت کی عظمت آشکار ہو رہی ہے۔ جو بھی آپ کی حیات طیبہ اور فضائل کا مطالعہ کرتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ ہمیں ایک نئی چیز دستیاب ہو گئی جس سے دوسرے ناواقف ہیں۔ لہذا ان ایام (شہادت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام) کی مناسبت سے آپ فضائل کے اقیانوس کے ایک قطرہ کی جانب اشارہ کریں گے جو نہج البلاغہ میں مرقوم ہے۔ 

بشریت کے لئے باعث افتخار 

عالم اسلام خصوصا عالم تشیع کے افتخار کی اہم سند، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا وہ عھدنامہ ہے جسے آپ نے جناب مالک اشتر علیہ الرحمہ کو عطا فرمایا جو تقریبا چودہ سو برس سے حقوق بشر کا معتبرترین اعلان ہے۔ 
اس عھدنامہ کے جملے اور عبارتیں کہ جسمیں حکومت کے مختلف شعبوں، سماج کا خیال رکھتے ہوے اسکے مختلف زاویوں کی پاسبانی قدر و اہمیت کے قابل اور ایک معجزہ ہے۔ 
اس عھدنامہ پر ماضی اور حال میں عظیم دانشوروں اور حکماء نے تحقیق کی اور بہت سی شرحیں لکھی گئی جنمیں سے ایک "الراعی و الرعیہ" نام کی شرح "توفیق الفکیکی" کی ہے۔ 

کتاب الامام علی صوت العدالہ الانسانیہ (امام علی عدالت انسانی کی آواز) 

ایک دن میں حسب معمول اپنے عظیم استاد آیت اللہ العظمی آقای بروجردی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں اس عظیم سرچشمہ علم سے فیضیاب ہو رہا تھا کہ آپ نے ایک خط جو اسی دن ان کو ملا تھا مجھے عطا کیا، خط لیا اور پڑھا، جو کچھ مجھے اس خط کا مضمون یاد ہے وہ مندرجہ ذیل ہے۔ 
جارج جرداق نے لکھا تھا: میں نے امام علی علیہ السلام کی تاریخ زندگی کا بہت مطالعہ کیا ہے اور اس حقیقت کو پا لیا کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں جو اصول قابل قبول، ملتوں اور امتوں کا جس پر اتفاق ہے۔ اور انسانی زندگی اور اسکی ترقی کی ضامن ہے وہ سب امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے دستور زندگی، روش اور سیرت پر مبنی ہیں۔ لیکن علماے اسلام نے اس پر نہ توجہ کی اور نہ ہی کماحقہ تشریح کی ہے۔ (البتہ یہ ان کا نظریہ ہے) 
مغربی دانشوروں نے بھی اس بات کو مخفی رکھا ہے اور نہیں چاہتے کہ اقرار کریں کہ مشرق کی ایک عظیم الشان شخصیت نے ان اصولوں کو ظاہر اور بیان کیا ہے۔ میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ مشرق میں ایسی شخصیت ہو اور اس کی شان و منزلت اور ان کا حق مجھول رہے، لھذا یہ کتاب لکھی ہے اور چوں کہ میں عیسای ہوں لہذا کوی مجھ پر تعصب کی تہمت نہیں لگاے گا۔ 
نیز انھوں نے لکھا تھا کہ میں نے آپ کی شخصیت کو اس کا اہل پایا لھذا آپ کو یہ کتاب بطور تحفہ بھیجی ہے۔  مطالعہ کے بعد آپ میری تصدیق کریں گے کہ "انی انصفت الامام بعض الانصاف"
استاد مرحوم کتاب کے منتظر تھے کیوں کہ کتاب اس وقت تک نہیں پہنچی تھی تو میں نے عرض کیا انشاء اللہ تعالی کتاب آ جاے گی ویسے یہ خط خود کہ جس میں ایسے مطالب اور اعترافات ہیں وہ اہم سند ہے۔ 
تھوڑے عرصہ بعد کتاب پہنچی۔ کتاب کا نام "الامام علی صوت العدالہ الانسانیہ" تھا۔ جو اس وقت ایک جلد میں تھی لیکن اب کئی جلدوں میں طبع ہوی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی سید بروجردی قدس سرہ کو جیسے ہی تھوڑی فرصت ملی اس کتاب کا مطالعہ فرمایا اور مجھے بھی حکم دیا کہ پوری کتاب کو پڑھوں اور جہاں بھی کوی غلطی ملے یادداشت کر لوں، استاد کے حسب حکم پوری کتاب پڑھی اور جہاں جہاں غلطی نظر آئی، نشان لگا دیا اور انکی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے تائید کرتے ہوئے ہدایت دی کہ ترجمہ میں ان نکات کا تذکرہ ہو۔ 

انسانی حقوق کے اعلان کا مالک اشتر کے عھد نامہ سے مقابلہ۔ 

اس کتاب میں جو قیمتی مطالب پڑھے وہ مالک اشتر کو لکھے گئے عھد نامہ کا انسانی حقوق کے اعلان سے مقابلہ ہے۔ 
اس عیسای دانشور نے انسانی حقوق کے اعلان کے نکات لکھے اور ہر نکتہ کے مقابلہ میں اس عھدنامہ کو پیش کیا اور کہتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کا اعلان ہے اور یہ مالک اشتر کو امام علی علیہ السلام نے جو عھد نامہ لکھا ہے وہ ہے ۔ جب دونوں کو ملاحظہ کریں گے تو پائیں گے کہ تمام نکات میں عھدنامہ کے جملے اس سے کامل تر اور مفید تر ہیں۔ اس فرق کے ساتھ۔ 
1: انسانی حقوق کے اعلان کو اس زمانے میں لکھا گیا جسے ترقی یافتہ زمانہ کہا جاتا ہے، اور کئی بار کی اصلاح کے بعد پیش کیا گیا جو آج رائج ہے لیکن امام علی علیہ السلام نے یہ  عھدنامہ 13 صدی پہلے جب ان حقوق کا نہ کہیں ذکر تھا اور نہ ہی کوی اس جانب متوجہ تھا اس وقت تحریر فرمایا۔ 
2: انسانی حقوق کے اعلان کے مضمون، الفاظ اور متن کے سلسلہ میں حقوق کا علم رکھنے والوں اور مختلف ممالک کے دانشوروں نے اپنی راے پیش کی اور تحقیق کی، اخباروں میں نشر کر کے سب کی راے لی گئی اور سب کی مشارکت سے لکھا گیا۔ لیکن امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے کسی سے مشورہ لئے بغیر جب مالک اشتر کو مصر کا حاکم بنایا تو یہ عھد نامہ لکھا۔ 
3: انھوں نے جب انسانی حقوق کا اعلان لکھا تو دنیا کی ملتوں خصوصا کمزور، مظلوم اور محروم ملتوں پر احسان جتایا اور اس پر افتخار کیا۔ جب کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے کسی پر احسان نہیں جتایا بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیا۔ 
4: جن لوگوں نے انسانی حقوق کے اعلان کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور خود کو اس کا بانی بتاتے ہیں (اگرچہ یہ جھوٹ ہے) وہ خود اس اعلان کا احترام نہیں کرتے۔ اور اپنے نفع کی خاطر اس اعلان کو بھول جاتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام خود عھدنامہ کے سب سے زیادہ پابند تھے اور کبھی اسکی مخالفت نہیں کی۔ 
یہ علوی فضائل کے اقیانوس کا ایک قطرہ تھا۔ 
حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی عظیم الشان شخصیت کے سلسلہ میں جتنا بھی لکھا جاے اس کی انتہا نہیں ہے۔ سلام اللہ و صلواتہ علیہ۔ 

مرجع عالی قدر حضرت آیت اللہ العظمی آقای شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی دام ظلہ 

ترجمہ: سید علی ھاشم عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .